محل تبلیغات شما



حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پوری دنیا کی خواتین کے لئے رول ماڈل

دنیا کے گوشہ وکنار میں تیرہ جمادی الاول سے جو ایک روایت کے مطابق شہزادی کی تاریخ شہادت ہے ایام فاطمیہ کی مجالس کا آغاز ہوجاتا ہے اور تین جمادی الثانی تک جو دیگر روایتوں کے مطابق شہزادی ین کی تاریخ شہادت ہے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بیس جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال مکہ مکرمہ میں اس دنیا میں تشریف لائیں اور سرکار دوعالم کی آغوش میں پرورش پائی اور اعلی الہی تعلیمات کی حامل بنیں۔ شہزادی ین علوم الہی کے سرچشمے سے سیراب ہوئی تھیں اور یوں آپ خداوند عالم کے مقربین میں سے تھیں۔ ایک روایت کے مطابق تیرہ جمادی الاول گیارہ ہجری قمری اور ایک روایت کے مطابق تین جمادی الثانی گیارہ ہجری قمری کو صرف اٹھارہ سال کی عمرمیں آپ شہید ہوئیں۔


مشہد مقدس جعفریہ پریس :
ملی یکجہتی سل پاکستان کے مرکزی وفد کی آیت اللہ رضا زادہ سے ملاقات

ملی یکجہتی سل پاکستان کے وفد نے حوزہ علمیہ مشہد کو ادارہ کرنے والی شوریٰ کے ممبر اور بزرگ عالم دین حضرت آیۃ اللہ رضا زادہ سے ان کی رھائش پر ملاقات کی۔فرقہ واریت اور امت میں انتشار و اختلافات کی روک تھام اور اتحاد امت مسلمہ پر تفصیلی گفتگو ھوئی آغا صاحب نے فرمایا کہ امت مسلمہ کی مصیبتوں کے پیچھے استعماری قوتوں خاص کر امریکہ کی سازشیں ھیں وہ یہ جانتے ھیں کہ امت کو کمزور کرنے کا واحد ذریعہ امت میں اختلاف ڈالنا اور اس کو تقسیم کرنا ھے تو آپ سب کی ذمہ داری ھے کہ مفکر پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے پاکستان کے استحکام اور اسے امن کا گہوارہ بنانے کے لئیے مسلمانوں کے تمام طبقات میں اتحاد و وحدت قائم کریں پاکستان ایک عظیم اور امت مسلمہ کے لئیے اللہ تعالی کی نعمت ھے اس کا تحفظ ھم سب کی ذمہ داری ھے پاکستان اور ایران ملکر عالمی استعماری طاقتوں کی امت کے خلاف ھر سازش کو ناکام بنا سکتے ھیں-
آیۃ اللہ رضا زادہ نے بزرگ شیعہ علمائ کرام کے اھل سنت بھائیوں کے ساتھ اتحاد و وحدت کی اھمیت پر فتاویٰ کو کتابوں سے مدارک کے ساتھ بیان کئے اور کہا کہ شیعہ علما کے فتاویٰ ھیں کہ اگر کسی سنی ملک کی جنگ کافر ملک سے ھو جائے تو دنیا میں ھر شیعہ پہ واجب ھے کہ وہ اپنے اھل سنت بھائیوں کے ساتھ کافروں کے مقابلے میں جنگ میں شریک ھو اور ملکر کافروں کے حملوں کا دفاع کریں اور اگر دو سنی ملکوں کی آپس میں جنگ ھو جائے تو شیعہ پر واجب ھے کہ انکی صلح کرائے اور اگر وہ صلح پر راضی نہ ھوں پھر ملکوں کو اسلحہ نہ بیچیں تاکہ جنگ زیادہ نہ بڑھے البتہ صرف وہ اسلحہ بیچنا جائز ھے جس میں انسانی جان کا تحفظ ھو جیسے زرہ اور خود ھے اور اگر وہ دونوں مسلمان ملک یہ اسلحہ نہ خریدیں تو شیعہ حکومت کی ذمہ داری ھے کہ جان کے تحفظ والے آلات دونوں ملکوں کو مفت فراہم کریں تاکہ ان مسلمان بھائیوں کی جانوں کا نقصان نہ ھو جب مسلمانوں کا اس طرح آپس کی جنگ میں قتل عام ھو گا تو امت اسلامیہ کمزور ھو گی –
اس لئے ھم اپنا فرض سمجھتے ھیں دنیا کے ھر خطے میں مسلمانوں آپس کے اختلافات ختم کرائیں اور زیادہ سے زیادہ اتحاد امت کے لئے اپنی توانائیاں خرچ کریں
آخر میں انھوں نے شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے اپنی لکھی ھوئی کتاب سب کو ھدیہ کی-
وفد کے سربراہ جناب لیاقت بلوچ اور دیگر حضرات نے بھی اسی حوالے سے گفتگو کی اور حضرت آیۃ اللہ کا شکریہ ادا کیا-

 


رہبر انقلاب کے بیان کی تائید،پائیدار امن کےلئے امریکی تسلط سے آزادی ضروری ہے،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی

حکم خداوند ی ” اے پیغمبر آپ دوسرے مذاہب کو کہہ دیں آئیں مل کر مشترک نکتے پر اکھٹے ہوتے ہیں سے استفادہ کی ضرورت،پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام اسلامی ممالک اور انسانیت دوست طبقات کو مشترک نکات پر متحد ہوکر استعماری سازشوں کو شکست دینا ہوگی، قائد ملت جعفریہ پاکستان

راولپنڈی / اسلام آباد 20 جنوری 2020ء (جعفریہ پریس ) قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ ہم رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کے اس بیان کہ تائید کرتے ہیں کہ امریکہ اس خطے میں جنگ، اختلاف و فتنہ اور تباہی لایا اور اسی استعمار نے خطے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا ،اس علاقے میں امریکا کی فتنہ انگیز موجودگی ختم ہونی چاہیے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے ”رہبر انقلاب اسلامی کے بیان کے تناظر میں کہاکہ خطے میں عدم استحکام، اختلاف و فتنہ اور تباہی کا ذمہ دار استعمار ہے ، خطے کے پائیدار امن کےلئے امریکی تسلط سے آزادی ضروری ہے ، مشترکات پر متحد ہوکر اور پاکستان میںاتحاد و وحدت کی فضاءقائم کرتے ہوئے آزادی،استقلال ،عادلانہ نظام کے قیام، عوامی حقوق کے تحفظ، امن کے قیام اوراسلامی اقدار کے فروغ کے سلسلے میں تما م طبقات اتھ ملکر چلنا ہوگا اور مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی جس کا ذکر قرآن پاک میں پیغمبر اسلام کو ہوا ”کہ آپ دوسرے مذاہب کو کہہ دیںآئیں مل کر مشترک نکتے پر اکٹھے ہوتے ہیں ۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھاکہ اسلامی وحدت کی بات کے ساتھ تمام طبقات کو متحد کرنے کےلئے قرآنی حکم سے استفادہ کرتے ہوئے مشترکات پر اکھٹے ہو کراستعماری قوتوں کے چنگل سے آزادی اوراستقلال حاصل کریں گے،مثبت اور پر امن انداز سے امریکہ اور اسکے حواری استعمار ی قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے اور پاکستان کو فلاحی مملکت بنائیں گے۔ موجودہ دنیا کے استعمار امریکہ ، اسرائیل اور بھارت اور اس کے حواریوں نے افغانستان ، فلسطین،عراق، کشمیر ، لیبیا ، یمن ، صومالیہ افریقہ سمیت کئی ممالک میں اپنے پنجے گاڑھ دیئے ہیں اور اب مشرق وسطیٰ میں ایران اور جنوبی ایشیاءمیں پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہیں ، استعماری قوتیں مختلف نوعیت کے اختلافات کو ہوا دے کراپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں اور اسلامی ممالک کے وسائل پر قبضہ کرکے اربوں ڈالر بٹو ر رہی ہیں ۔
انہوںنے زور دیتے ہوئے کہاکہ مسئلہ فلسطین دہائیوں سے حل طلب، اس مسئلے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود استعمار ہے کیونکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئے اس امریکی استعمار کو اسرائیل جیسے بغل بچے کی ضرورت ہے دوسری جانب مسئلہ کشمیر بھی جان بوجھ کر برصغیر میں مستقل بدامنی برقرار رکھنے کےلئے چھوڑاگیا، امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی تمام سازشوںکو شکست سے دوچار کرنے کےلئے تمام اسلامی ممالک کو اتحاد وحدت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اپنے تمام اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے حکم الہی سے استفادہ کرنے کی ضروت ہے اور موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو مشترک نکات پر اکھٹے ہوکر استعماری سازشوں کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے متحد ہونا ہو گا۔

 


جمال ریان لکھتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ ایرانی مرشد کی زبان پر جاری ہونیوالی عربی اعلی اور کسی بھی غلطی سے دور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انکی زبان پر جاری ہونیوالی عربی کا سننا بہت سے عرب حکام کی زبان سے عربی سننے کی نسبت ھزار گنا بہتر ہے۔

اسلام ٹائمز۔ عرب نیوز چینل الجزیرہ کے معروف اینکر پرسن جمال ریان نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے عربی خطبے پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ جمال ریان جو ایک تجربہ کار اور پرانے صحافی ہیں، آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے عربی خطبے کے بارے میں اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ ایرانی مرشد علی خامنہ ای کی زبان پر جاری ہونیوالی عربی اعلی اور کسی بھی غلطی سے دور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انکی زبان پر جاری ہونیوالی عربی کا سننا بہت سے عرب حکام کی زبان سے عربی سننے کی نسبت ھزار گنا بہتر ہے۔


*رہبر معظم کے خطبہ جمعہ کے اہم نکات*

لوگوں پر ایک ایسا وقت آئےگا! 

رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: كَانَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَقُولُ يَأْتِي عَلَى اَلنَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ فِيهِ أَحْسَنُهُمْ حَالاً مَنْ كَانَ جَالِساً فِي بَيْتِهِ.

حضرت امام ابوجعفرعلیہ السلام نے فرمایا امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:لوگوں پرایک ایساوقت آئےگا کہ جس میں اُس کاحال بہترہوگاجوگھرمیں رہےگا.

التحصین ابن فھد حلی:ص
مثیرالاحزان:ج2:ص
مستدرک الوسائل:ج11:ص388
موسوعۃ احادیث اہل بیت:ج1:ص332


تقلید کریں مگر دلیل معلوم کرنے کے بعد

اس نے کہا کہ میں تقلید اور فقہاء سے حکم شرعی لینے کا مخالف نہیں ہوں لیکن  عوام کےلئے ضروری ہے کہ وہ فقیہ سے فقط حکم شرعی نہ پوچھیں بلکہ دلیل بھی پوچھیں  اور پھر پرکھیں جس فقیہ کی دلیل درست ہو اس کے مطابق عمل کریں ۔


جس کا جھوٹ زیادہ ہوگا. 

عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الله عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ظَرِيفٍ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله (عَلَيهِ السَّلام) قَالَ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ (عَلَيهِما السَّلام) مَنْ كَثُرَ كَذِبُهُ ذَهَبَ بَهَاؤُهُ.

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:جس کا جھوٹ زیادہ ہوگا اسکی ابروجاتی رہےگی۔

الكافي ج 2 ص 341, وسائل الشيعة ج 12 ص 244, بحار الأنوار ج 14 ص 330.شرع اصول کافی:ج9:ص402
جھوٹ بولنا. 

الإمام علي (عليه السلام): اعتياد الكذب يورث الفقر۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا:جھوٹ بولنے کو اپنی عادت بنالینا تنگدستی کا سبب ہوتا ہے۔

الخصال ج 2 ص 504, روضة الواعظين ج 2 ص 455, مشكاة الأنوار ص 129, وسائل الشيعة ج 15 ص 347, بحار الأنوار ج 69 ص 261, مستدرك الوسائل ج 3 ص 456،میزان الحکمۃ:ج3:ص2678،


نوروز کے بارے میں سی شرعی دلیل پائی جاتی هے؟

عید نوروز، ان عیدوں میں سے ایک عید هے که ایران اور اس کے همسایه ملکوں کے فارسی زبان لوگ اور ایران، عراق اور ترکیه  کے ترک زبان لوگ اس کا احترام کرتے هیں اور اسے عید کے طور پر مناتے هیں-
یه عید، ایران کی قدیم قومی عیدوں میں سے ایک عید هے جو اسلام سے پهلے رائج تھی-
هم اس سلسله میں موجود منابع کی طرف رجوع کرنے پر کوئی ایسی روایت نهیں پاتے هیں جو اس کی تائید کرتی هو یا کوئی فقیه اس کا معترض هو- صرف شیخ طوسی کے زمانه {۴۶۰ هجری} میں کتاب "مصباح التهجد" میں مندرجه ذیل روایت نقل کی گئی هے که:
" معلی بن خنیس نے امام صادق علیه اسلام سے روایت کی هے که نوروز کے دن غسل کرنا، پاکیزه ترین لباس زیب تن کرنا، خوشبو لگانا، روزه رکھنا، ظهروعصر کی نماز اور ان کے نوافل پڑھنے کے بود چار رکعت نماز بجا لانا، اس نماز کی پهلی رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه سوره "انا انزلنا" پڑھیں اور دوسری رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه "قل یا ایھا الکافرون"  اور تیسری رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه " قل ھو الله احد" اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه "قل اعوذ برب الناس"  اور "قل اعوذ برب الفلق" پڑھیں اور نماز ختم کرنے کے بعد سجده میں جائیں اور بارگاه الهٰی میں شکر بجا لائیں اور خداوندمتعال سے پچاس سال کے گناهوں کو بخش دینے کی درخواست کریں[1]-
اس کے علاوه کتاب "مهذب" میں مذکوره راوی سے نقل کیا گیا هے که امام صادق علیه السلام نے فرمایا: "نوروز وهی دن هے جس دن پیغمبراسلام {صلی الله علیه وآله وسلم} نے غدیرخم میں حضرت علی {علیه السلام } کے لیے لوگوں سے بیعت لے لی اور ان کی ولایت کا اقرار کرایا اور مبارک هو ان لوگوں پر جو اس پر ثابت قدم رهے، اور افسوس هے ان لوگوں پر جنهوں نے اس کی عهدشکنی کی ، اور یه وه دن هے، جس دن رسول خدا {صلی الله علیه وآله وسلم} نے علی {علیه السلام } کو جنات کی وادی میں بھیجا تاکه ان سے بیعت لی لیں اور یه وه دن هے جس دن حضرت علی {علیه السلام} نے اهل نهروان پر فتح حاصل کی اور ذوالثدیه کو قتل کر ڈالا، اور یه وه دن هے جس دن همارے قائم {عج} اپنے کارندوں کے همراه ظهور کریں گے اور خداوندمتعال انهیں دجال کو شکست دینے میں کامیابی عطا کرے گا اور دجال کو کوفه میں سولی پر چڑھائیں گے، کوئی ایسا نوروز نهیں هے جس میں هم اپنے امام {عج} کے ظهور کی امید نهیں رکھتے هیں، کیونکه یه دن همارا دن هے، جسے ایرانیوں نے محفوظ رکھا هے اور آپ نے اسے ضائع کیا هے{اس کے بعد کلام کو جاری رکھتے هوئے فرمایا:} بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی نے خداوندمتعال سے درخواست کی که هزاروں افراد پر لوگوں کی ایک جماعت، جو موت کے ڈر سے گھروں سے بھاگ گئے تھے، خداوندمتعال نے انهیں موت سے دوچار کیا تھا، انهیں دوباره زنده کرے اور خداوندمتعال نے اس نبی کو وحی بھیجی که ان پر پانی چھڑکے، اور اس نبی نے اس دن ان پر پانی چھڑکا اور وه سب زنده هوئے، ان کی تعداد تیس هزار افراد تھی، اس دن پانی چھڑکنا ایک دائمی سنت بنی اور اس کا سبب علم میں پائداری رکھنے والے هی جانتے هیں، اور وه ایرانیوں کے سال کا پهلا دن هے،" معلی کهتا هے: " امام {ع} نے مجھے اس کا املا فرمایا اور میں نے لکھا[2]-"
عصر جدید کے مشهور فقها نے اس روایت پر عمل کیا هے اور نوروز کے دن غسل کے مستحب هونے کا فتوٰی دیا هے- صاحب جواهر کهتے هیں" " نوروز کے دن غسل کرنا متاخرین میں مشهور هے یه معلی بن خنیس کی امام صادق علیه السلام سے روایت کی وجه سے هے جو کتاب مصباح سے نقل کی گئی هے، هم نے اس سلسله میں کوئی مخالفت نهیں پائی[3]-
لیکن مرحوم آیت الله خوئی نے روایت کے مرسل هونے کی وجه سے اس پر عمل نهیں کیا هے اور کها هے: " معلی بن خنیس کی روایت مرسله هے، اس لیے اس پر اعتماد نهیں کیا جا سکتا هے مگر یه که ادله سنن میں قول تسامح کی بنا پر، که هم اسے قبول نهیں کرتے هیں[4]-"
اس بنا پر کها جا سکتا هے که اس عید کو سو فیصدی دینی رنگت نهیں دی جا سکتی هے اور اسے دینی عیدوں میں شمار نهیں کیا جا سکتا هے-
لیکن یه سوال پیدا هوتا هے که فرض کریں که شارع مقدس نے اس عید کو ایک دینی عید کے طور پر قبول نهیں کیا هے، لیکن کیا کهیں پر اس کی ممانعت اور نهی کی هے؟ اور اسے حرام قرار دیا هے؟ تاکه اسے منعقد کرنا جائز نه هو؟
هم اس کے جواب میں کهتے هیں: ابن شهر آشوب اپنی کتاب "مناقب" میں ایک روایت نقل کرتے هوئے لکھتے هیں : " نقل کیا گیا هے که منصور دوانقی نے کسی کو امام موسی بن جعفر {علیه السلام} کی خدمت میں بھیجا تاکه ان سے اجازت حاصل کرے که جب لوگ نوروز کے دن اس کے پاس مبارکبادی کے لیے هدایا اور تحفے لے کر آتے هیں اس کے پاس بیٹھیں، حضرت{ع} نے فرمایا: " مجھے اس سلسله میں اپنے جد بزرگوار کی کوئی روایت نهیں ملی اور یه ایرانیوں کی سنت هے، اسلام نے اسے ختم کیا هے، خدا کی پناه هو که ایک ایسی چیز کو زنده کرنا چاهئیں، جسے اسلام نے ختم کیا هے؛"
منصور نے کها: هم اس کام کو اپنے لشکر کے لیے ی طور پر انجام دیتے هیں آپ کو خدا کی قسم هے که تشریف رکھئے اور اس کے بعد حضرت {ع} بیٹھه گئے، اور وزراء، امراء، گورنر اور فوجی هدایا کے ساتھه داخل هوئے اور اسے مبارکبادی دیتے تھے۔ ۔ ۔ [5]"
واضح هے که اس روایت کی سند ضعیف هے، کیونکه ابن شهرآشوب نے روایت کی سند کو بیان نهیں کیا هے بلکه اسے "وحکی" کی تعبیر سے نقل کیا هے اور یه اس روایت کے ضعیف هونے اور اس سے استناد نه کرنے کی دلیل هے-
قابل ذکر بات هے که عید نوروز کے دن جشن منانا ایک وسیع مسئله اور ایک رائج رسم تھی، اگر نوروز اسلام اور دین کے خلاف هوتا تو قطعاً ائمه معصومین {علیهم السلام } واضح طور پر تاکید کے ساتھه اس کی ممانعت فرماتے اور بے شک وه ممانعت هم تک پهنچتی اور واضح هے که ائمه {ع} کی خدمت میں نوروز کا ذکر هوتا تھا لیکن انهوں نے اس کی ممانعت اور نهی نهیں فرمائی هے اور اسے باطل قرار نهیں دیا هے[6]- واضح هے که ایک ایسی پائدار رسم کو ایک مرسل روایت پر اعتماد کر کے نابود نهیں کیا جا سکتا هے- اس لیے اس مسئله کو مباحات میں داخل کرنا چاهئیے- خاص کر اس عید کی تقریب موسمی لحاظ سے طبیعت کے بهترین ایام، یعنی بهار میں منعقد کی جاتی هے جن دنوں معاد کی یاد تازه هو جاتی هے اور اس کے علاوه اس دن لوگ ایسے کام انجام دیتے هیں، جن کی شارع مقدس نے تائید کی هے، مثال کے طور پر : گھروں کی صفائی کرنا، صله ارحام ، مومنین کو مسرور کرنا، دشمنیوں، کینوں اور کدورتوں کو دور کرنا، قیدیوں کو آزاد کرنا وغیره- البته غلط رسومات، جیسے آگ پر سے چھلانگ لگانا وغیره بھی ان دنوں انجام پاتے هیں که نه صرف ان کے صحیح هونے کے سلسله میں کوئی شرعی دلیل نهیں هے بلکه یه کام بجائے دین کے خرافات کے زیاده نزدیک هے اور اس کو نابود کرنے کے لیے کوشش کی جانی چاهئیے-
اس سلسله میں هم حسن ختام کے طور پر امیرالمومنین{علیه السلام } کے کلام کی طرف اشاره کرتے هیں که آپ {ع} نے فرمایا هے: " هر وه دن، جس دن خدا کی نافرمانی اور معصیت نه هو، وه عید هے[7]-
"
[1] وسائل الشیعه، ج 8، ص 173.
[2] ایضاً.
[3] جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، ج 5، ص 42؛ العروة الوثقی (المحشی)، ج 2،ص 152
[4] موسوعه امام خویی، ج 10، ص 50.
[5] المناقب، ج 4، ص 319.
[6] ملاخطه هو: کافی، ج 5، ص 142؛ من لا یحضره الفقیه، ج 3، ص 300.
[7] نهج البلاغة، ص 551، عدد 428.


امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

جب تمہیں غیض وغضب آجائے تو اسے معاف کرکے پورا کروکیونکہ قیامت کے دن ایک منادی آواز دے گا کہ جس کا اللہ پر کوئی اجر ہے وہ کھڑا ہوجائے تو اس وقت معاف کردینے والوں کے سوا کوئی بھی کھڑا نہیں ہوسکے گا کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا ،فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ۔یعنی جو شخص معاف کردے اور معاملہ کی اصلاح کردے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔سورہ شوریٰ:40)،

بحارالانوار:جلد77،ص0،جلد78،ص،342


ہمارا علم تین قسم کا ہے۔!

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَمِّهِ حَمْزَةَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ عَلِيٍّ السَّائِيِّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الاوَّلِ مُوسَى (عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ قَالَ مَبْلَغُ عِلْمِنَا عَلَى ثَلاثَةِ وُجُوهٍ مَاضٍ وَغَابِرٍ وَحَادِثٍ فَأَمَّا الْمَاضِي فَمُفَسَّرٌ وَأَمَّا الْغَابِرُ فَمَزْبُورٌ وَأَمَّا الْحَادِثُ فَقَذْفٌ فِي الْقُلُوبِ وَنَقْرٌ فِي الاسْمَاعِ وَهُوَ أَفْضَلُ عِلْمِنَا وَلا نَبِيَّ بَعْدَ نَبِيِّنَا.

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:ہماراعلم تین قسم کا ہے۔اول زمانہ ماضی کا علم(جو ایک امام سے دوسرے امام کوملتا ہے)دوسرے باقی ماندہ علم(جوقرآن سے ماخوذہوتا ہے)جو کتاب خدا میں لکھا ہوا ہے تیسرا حادث(جو روزمرہ کی تبدیلیوں کے متعلق شب قدر میں حاصل ہوتا ہے)وہ دلوں میں ڈالا جاتا ہے یافرشتہ کی آواز کانوں میں آتی ہے اور یہ ہمارے علم کی سب سے بہتر صورت ہے ۔اور ہمارے نبی (حضرت محمدؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے.

حدیث کی سند صحیح ہے ۔

الکافی:ج1:ص264

بصائر الدرجات:ص338

مراۃ العقول:ج3:ص136


*وہ اُٹھ کر اندر گئے‘ چیک بک لے کر آئے‘ ساٹھ ستر لاکھ روپے کا چیک کاٹا‘ یہ چیک صاحبزادے کے حوالے کیا اور آنکھیں نیچے کر کے بولے‘ آپ یہ رقم لو اور مجھے اس کے بعد کبھی اپنی شکل نہ دکھانا‘ اس نے وہ چیک جیب میں ڈالا اور نعیم بخاری کے ساتھ واپس چلا گیا۔ وہ فلمساز 1983ء میں انتقال کر گئے۔ انتقال کے وقت ان کا کوئی اپنا وہاں موجودنہیں تھا‘ نعیم بخاری صاحب کے بقول ’’یہ منظر دیکھنے کے بعد میرے دل میں پوری زندگی کے لیے دولت کی خواہش ختم ہو گئی‘‘۔*

*ہم سے زندگی میں صرف دس چیزیں بے وفائی کرتی ہیں‘ ہم اگر ان دس بیوفاؤں کی فہرست بنائیں تو عہدہ دولت اور اولاد پہلے تین نمبر پر آئیں گی‘ ہم عہدے کے لیے ایمان‘ عزت‘ سیلف ریسپیکٹ‘ اخلاقیات‘ صحت اور خاندان تک قربان کر دیتے ہیں لیکن یہ عہدہ سب سے زیادہ بے وفا نکلتا ہے ‘ میں نے کرسی پر بیٹھے لوگوں کو فرعون اور نمرود بنتے بھی دیکھا اور ’’نسلیں ختم کردو‘‘ جیسے احکامات جاری کرتے بھی لیکن پھر جب عہدے نے بے وفائی کی تو میں نے اپنی آنکھوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے با اختیار لوگوں کو بھی عدالتوں کے باہر گندی اینٹوں اور قلعوں کی حبس زدہ کوٹھڑیوں میں محبوس دیکھا‘ میں نے بے شمار ارب اور کھرب پتی لوگوں کو پیسے پیسے کا محتاج ہوتے بھی دیکھا‘؟*

 *دولت مند غریب ہو گئے‘ مالک ملازم بن گئے اور نمبردار وقت کے سیاہ صفحوں میں جذب ہو گئے چنانچہ پھر دولت سے بڑی بے وفا چیز کیا ہوگی اور رہ گئی اولاد! میں نے بے شمار لوگوں کو اپنی اولاد سے محبت کرتے دیکھا‘ یہ لوگ پوری زندگی اپنی اولاد کے سکھ کے لیے دکھوں کے بیلنے سے گزرتے رہے لیکن پھر کیا ہؤا؟ وہ اولاد زمین جائیداد کے لیے اپنے والدین کے انتقال کا انتظار کرنے لگی‘ میں نے اپنے منہ سے بچوں کو یہ کہتے سنا ’’ اباجی بہت بیمار ہیں‘ دعا کریں اَلله تعالیٰ ان کی مشکل آسان کر دے‘‘ اور یہ وہ باپ تھا جو بچوں کے نوالوں کے لیے اپنا ضمیر تک بیچ آتا تھا۔*
*میں نے ایسے مناظر بھی دیکھے‘ باباجی کے سارے بچے ملک سے باہر چلے گئے۔ بابا جی نے تنہائی کی چادر بُن بُن کر زندگی کے آخری دن گزارے‘ انتقال ہوا تو بچوں کو وقت پر سیٹ نہ مل سکی‘ چنانچہ تدفین کی ذمے داری ایدھی فاؤنڈیشن نے نبھائی یا پھر محلے داروں نے!‘*

*یہ ہے کُل زندگی! اولاد‘ دولت اور عہدے کی بے وفائی ان بے وفائیوں کے داغ اور آخر میں قبر کا اندھیرا ۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے لیکن اس کے باوجود انسان کا کمال ہے‘ یہ دیکھتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آتا‘ یہ سنتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دیتا اور یہ سمجھتا ہے لیکن اسے سمجھایا نہیں جا سکتا‘ ہر روز لوگوں کو تباہ ہوتا، مرتا، ذلیل ہوتا دیکھتا ہے مگر یہ ہر بار خود کو یقین دلاتا ہے ’’ یہ میرے ساتھ نہیں ہوگا‘‘ کیوں؟ کیونکہ ’’میں دوسروں سے مختلف ہوں‘‘۔.* 
      
                *موت کے بعد انسان کی ۹ آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨؤﺍ ﮨﮯ:*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*1۔ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا*
 *ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭة النبأ‏  40#)*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 *2- يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي* 
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ‏( ﺍﺧﺮﯼ ‏) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24 ‏)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*3- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*4۔ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*5۔ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا* 
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍلله ﺍﻭﺭ اس کے ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*6۔ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا* 
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*7۔ يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73‏)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*8۔ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا* 
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ﭨﮭﯿﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*9۔ يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِين*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*

⚪ تعارف امام محمد باقرؑ ⚪

امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت تمام مؤمنين کو مبارک ہو.

نام: محمد
والد: زین العابدین علیہ السلام
والدہ: فاطمہ (بنت امام حسن علیہ السلام)
کنیت: ابو جعفر
لقب: باقر
تعداد اولاد: 7
بیٹے: 5
بیٹیاں: 2
مدت حیات: 57 سال
مدت امامت: 19 سال
تاریخ ولادت: 1 رجب المرجب/57 ہجری
تاریخ شہادت: 7 ذی الحجہ/114 ہجری
جائے ولادت: مدینہ منورہ
جائے شہادت: مدینہ منورہ
مدفن: جنت البقیع مدینہ منورہ
قاتل: ہشام بن عبد الملک (ملعون)


تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

مدلسازی آبهای زیرزمینی وارش